وزیر اعظم عمران خان آج ایک روزہ دورے پر کابل روانہ ہونگ
وزیر اعظم عمران خان آج ایک روزہ دورے پر کابل روانہ ہوں گے اس دورے کی دعوت انہیں افغان صدر اشرف غنی نے دی ہے 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ وزیر اعظم کا افغانستان کا پہلا دورہ ہوگا. وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اعظم برائے مشیر برائے تجارت رزاق داﺅد اور دیگر اعلی عہدیدار بھی وزیراعظم کے ساتھ ہونگے صدر اشرف غنی کے ساتھ عمران خان کی ون آن ون ملاقات شیڈول ہے، وفد کی سطح پر بات چیت اور مشترکہ پریس اسٹیک آﺅٹ شامل ہیں ایجنڈے میں شامل ہیں.انتہائی ذمہ دار حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سے دوٹوک اندازمیں وا خان راہداری ‘افغانستان کے راستے پاکستانی مصنوعات کی وسط ایشیائی ریاستوں‘روس اور یورپ تک چاہتا ہے اب تک افغان حکومت پاکستان سے تجارتی اور مالی فوائد اٹھاتی آئی ہے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر پاکستان نے کابل کو بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے زمینی راستہ فراہم کیا بلکہ اپنی بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت بھی دی .تاہم واخان کی راہداری کے معاملے پر افغانستان کی سابق کرزئی حکومت ہو یا موجودہ اشرف غنی انتظامیہ ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتے آئے ہیں قراقرم کے پہاڑی سلسلہ کے جنوب میں واقع یہ سرحدی پٹی 350کلومیٹرلمبی اور محض13کلومیٹرچوڑی ہے یہ صدیوں پرانا روایتی تجارتی روٹ مانا جاتا ہے جو ہندوستان کو وسط ایشیاءاور روس کے راستے یورپ تک جوڑتا تھا.برطانوی راج جہاں تقسیم ہند کے وقت بہت سارے تنازعات چھوڑکرگیا وہیں واخان کوریڈور پرڈیونڈرلائن کا معاہدے کے ذریعے پاکستان کی تاجکستان تک زمینی راستے سے رسائی کو بھی متازع بنا گیا. حکومتی ذرائع کا کہناہے کہ مشرف دور میں افغانستان سے واخان کوریڈور کھولنے کی بات شروع کی گئی تھی اور اس سلسلہ میں این45ہائی وے کی تعمیر بھی کی گئی تھی جس سے دوشاخیں نکل پر واخان باڈرکے قریب جاکر رکی ہوئی ہیں 2008سے2018تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے ادوار میں اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی مگر موجودہ حکومت نے دوبارہ اس معاملے پر توجہ دیتے ہوئے افغان حکومت سے بات چیت شروع کی ہے تاکہ صدیوں پرانا یہ تجارتی روٹ پھر سے بحال ہوسکے .اس ضمن میں بتایا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی دوطرفہ تعلقات، افغان امن عمل، علاقائی ومعاشی ترقی سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا دفتر خارجہ کے مطابق مشیر تجارت رزاق داﺅد وزیراعظم عمران خان کے دورہ افغانستان سے متعلق پہلے ہی کابل کا تین روزہ دورہ مکمل کرچکے ہیں اور انہوں نے دوطرفہ اور سرمایہ کاری کے تعلقات اور تجارتی راہداری سے متعلق امور پر بات چیت کی تھی.افغان حکومت کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کرنے والے متعدد اہم شخصیات سے ملاقات کے رزاق داﺅد نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی تھی اور تجارت اور اقتصادی انضمام سے متعلق متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا تھا اپنے دورے کے دوران انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے مابین پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی (اے پی ٹی ٹی سی اے) کے اجلاس میں شرکت کی جس میں راہداری معاہدے پر حائل رکاوٹ سے متعلق مسائل کے حل کے لیے تبادلہ خیال کیا گیا.افغان حکومت میں ملک کے مختلف حصوں کی نمائندگی کرنے والے متعدد معززین اور قبائلی زعماءکے ساتھ ملاقات کے علاوہ ، رزاق داﺅد نے صدر غنی سے بھی ملاقات کی تھی اور تجارت اور اقتصادی انضمام سے متعلق متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا تھا یہ امرقابل ذکر ہے کہ سرحد کے اس جانب منگورہ ڈویژن اور چترال کا ضلع جبکہ سرحد کی دوسری جانب افغان صوبہ بدخشاں قیمتی پتھروں کی دولت سے مالا مال پسماندہ اور غربت کا شکار پہاڑی علاقے ہیں جو دونوں حکومتوں کی جانب سے عملی اقدامات کے منتظرہیں تاکہ ان علاقوں کے لوگوں کے حالات بدل سکیں اسی طرح لینڈ روٹس نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال سرحدکے دونوں طرف بسنے والے کسانوں کے باغات کے لاکھوں ڈالر مالیت کے پھل ضائع ہوجاتے ہیں.واضح رہے کہ رواں برس جون میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی اور امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے افغانستان میں آن ون آن ملاقاتوں میں خطے کی سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کیا تھا‘عبداللہ عبداللہ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران صدر مملکت عارف علوی ‘وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سمیت اعلی شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں.خیال رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کی ہر حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے وزیر اعظم عمران خان نے پاک افغان تجارت سرمایہ کاری فورم 2020 کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کے افغانستان سے روابط صدیوں سے ہیں تاہم افغانستان میں انتشار کے باعث دونوں ممالک کو نقصان پہنچا پاکستان پرامن افغانستان کا خواہاں ہے.انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو نقصان پہنچا جبکہ افغانستان میں انتشار نے دونوں ممالک میں غلط فہمیوں کو جنم دیا بیرونی دباﺅ سے افغانستان کے عوام پر رائے مسلط نہیں ہوسکتی اب افغانستان کے لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے. وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ احساس کریں ماضی میں کیا کھویا کیا پایا، انسان ماضی سے سیکھتا ہے ماضی میں رہتا نہیں ہے اور عوامی روابط سے باہمی تعلقات کو فروغ ملتا ہے دونوں ممالک میں عوامی اورسیاسی روابط کو فروغ دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور میری حکومت کی مخلصانہ کوشش ہے کہ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات پیدا ہوں.انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے اور افغانستان میں امن آنے سے پاکستان اور دیگر ممالک کو بھی فائدہ ہو گا ہمیں ماضی سے نکل کرتجارت، معیشت اور امن کی جانب جانا چاہیے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہم نے بھارت سے دوستی کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے تاہم ہم بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش پھر بھی کرتے رہیں گے.