شندور چترال کا حصہ ہے
چترال کے عوام شندور چراگاہ کو ہندارپ نیشنل پارک کے ساتھ شامل کرنے کی وفاقی حکومت کی اقدام کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ اسے کسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اس کی ڈی نوٹیفکیشن کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پر واضح کرتے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال کی تحریر شدہ تاریخ سے ثابت اپنی ملکیت سے دستبردار نہیں ہوں گے اور شندور کو متنازعہ بنانا ایک گہری سازش کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے جس سے احتراز کیا جائے۔ جمعہ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چترال کے تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں کے رہنماؤں شہزادہ سکندرالملک، عبدالولی خان ایڈوکیٹ، مولانا جمشید احمد، محمد حکیم ایڈوکیٹ، ایم آئی خان سرحدی ایڈوکیٹ، وقاص احمد ایڈوکیٹ، قاضی نسیم، محمد یوسف شہزاد، زلفی ہنر شاہ، قلندر شاہ، لیفٹیننٹ (ر) شیر اعظم خان اور دوسروں نے وزیر اعظم عمران خان پر زور دیا کہ انہیں حقائق کے منافی مشورے دے کر ہندراپ شندور نیشنل پارک کی منظوری ان سے لے لی گئی ہے جس سے چترال میں سراسیمگی اور بے چینی پھیل گئی ہے کیونکہ شندور چترال کا حصہ ہے اور ہندراپ گلگت بلتستان میں واقع ہے جن کے درمیان 40کلومیٹر کا فاصلہ واقع ہے۔ انہوں نے زور دے کرکہاکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ہونے تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گااور اس وجہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی را مختلف ناموں سے خیبر پختونخوا کی وسیع اراضی کو گلگت بلتستان میں شامل کرکے متنازعہ بنانا چاہتی ہے جس کا اعتراف اگست 2016ء میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھااور حال ہی میں گلگت بلتستان کے علاقے سے کئی بھارتی ایجنٹ گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ انہوں نے شندور چراگاہ کا چترال کی ملکیت ہونے کے ثبوت پیش کرتے ہوئے کہاکہ 1895ء میں انگریز فوج نے جب چترال کی طرف پیش قدمی کی تو شندور چراگاہ کے شروعات میں واقع کاریان گاز کے مقام تک اہالیان گلگت نے ان کے ساتھ سامان کی بار برداری میں مدد دی جبکہ اس مقام سے آگے چترال کے باشندوں نے انگریزوں کی مدد کی اور 20ویں صدی عیسوی کے شروع میں مہتر چترال نے شندور ٹاپ کے مقام پر ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ گلگت اسکاوٹس کا کمانڈنٹ 1926ء میں اس میں قیام کے لئے مہتر چترال سے منظوری لی تھی اور یہ ثبوت اوریجنل خط کی صورت میں موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ 1959ء میں شندور چراگاہ سے متصل لنگار جنگل پر چترال اورغذر کے عوام کے درمیان تنازعہ ہواتو بھی اسے چترال ہی کا حصہ قرار دے دیا گیا تھا اور 1988ء تک چترال فارسٹ ڈویژن کا فارسٹ گارڈ اس جنگل کی حفاظت پرمامور رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہوگئے اور اس کی بیوہ اب بھی فیملی پنشن لے رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 1981ء میں جشن شندور شروع ہونے کے بعد سے اب تک اس کا انتظام وانصرام چترال کے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے ہاتھ رہا اور شندور میں ماضی قریب میں قتل سمیت جرائم کی تین دوسری واراتوں کا ایف آئی آر چترال پولیس نے درج کی اور مقدمات چترال کے ضلعی جوڈیشری میں سماعت ہوئے۔ چترال کے سیاسی اور سوشل عمائیدین نے کہاکہ موجودہ حالات میں صوبائی حکومت نے سی پیک منصوبے کے تحت متبادل شاہراہ کے لئے شندور ٹاپ کو مناسب راستہ قرار دیا ہے اور ایسے نازک موقع پر بھارتی ایجنٹوں کی طرف سے گلگت بلتستان کے علاقہ سے ملاکر شندور میں نیشنل پارک قائم کرنا سی پیک کے عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کی گہری سازش ہے جس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا جائے گا اور بھارتی ایجنٹوں کا بچھایا ہوا جال کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ صوبائی حکومت کی کمزور ی ہے کہ وفاقی حکومت کو درست معلومات فراہم نہ کرنے اور اس متنازعہ نیشنل پارک کے فیصلے کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ا س موقع پر فیصلہ ہواکہ تمام زمینی حقائق سے وزیر اعظم عمران خان کو صوبائی حکومت کی مدد سے باخبر کیا جائے گا۔