الیکشن 2024ء” چترال پارٹی "کے نام
ہم سب چترالی ہیں،چترالی ہونا ہماری قومیت ہے،چترال ہماری پہچان ہے،اور یہ ہماری جان ہے،اس نے ہمیں ایک ایسا نام دیا جو امن کا استعارہ ہے،محبت و خلوص کی نشانی ہے،دیانت و وفاداری سے عبارت ہے،عزت ووقار کی علامت ہے۔ آسمان سے سرگوشی کرتے ہوئے ان پہاڑوں کے بیچ رہنے والے ہم سب ایک قوم ہیں،مزید قومیت کے نام پر ہمیں اُکسانے اور گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں، یہ بے وفائی ہم سے نہیں ہوگی کہ لواری ٹنل کو کراس کرنے کے بعد ہم چترالی اور چترال میں ہم کچھ اوربنیں۔۔۔۔۔رشتہ داری کے نام پر ہمارے جذبات کے ساتھ مزید مت کھیلیں،کیونکہ یہ رشتہ داری تمہیں بھی اچانک ووٹ کے موسم میں یاد آتی ہے۔۔۔۔۔پارٹیوں کے نام پرہمارے ذہنوں کو مت الجھائیے،کیونکہ مفادات کے سامنے تمہاری پارٹیاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ورنہ نون لیگ اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کا یکجا ہونا آگ اور پانی کے درمیان مصالحت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔خدارا !ہمارے اس پیارے چترال کو مزیدپیچھے دھکیلنے کی کوشش نہ کریں، بہت ہوگیا،بہت عرصہ بیت گیا،اس پیارے چترال کو تختۂ مشق بناتے ہوئے۔۔۔۔۔چترال کے حریف کھنڈرات تھے لیکن اب وہ سرسبزی وشادمانی کے زینے طے کرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چُھورہے ہیں،لیکن ہمارا یہ پیارا چترال ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے تمہاری وجہ سے زوال وپستی کی طرف جارہا ہے،اِس چترال نے تمہیں سب کچھ دیا لیکن تم نے اِس کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا،شاید اِس کے ساتھ یہ تم نے جان بوجھ کر کیاہے۔۔۔۔۔اب بس کریں! اس پیارے چترال کے ناتواں کندھوں میں مزید سہنے کی طاقت نہیں رہی،اب چترال نے بھی تہیہ کیا ہے کہ وہ اس الیکشن میں صرف چترال کوووٹ دے گا۔
آیئےالیکشن 2024ء چترال کے نام کرتے ہیں۔۔۔۔اے میرے پیارے چترال! ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم اس بار صرف اور صرف تمہیں ووٹ دیں گے،اس بار ہمیں تمہارے خلاف کوئی بھی شخص کسی بھی نام پر نہیں وَرغلا سکے گا۔۔۔۔۔اے میرے پیارے چترال! اس بار ہم الیکشن میں ایسے شخص کو منتخب کریں گے جو تمہیں ایسا سنوارے گا کہ تمہارے حریف تم پر رشک کریں گے۔
اس بارچترال کی سب سے بڑی پارٹی” چترال پارٹی "نے اپنی پارٹی کے لئے بطورِ اُمیدوار الحاج سینیٹر محمد طلحہ محمود صاحب کوقومی اسمبلی کا ٹکٹ ،مولانا فیض محمدمیرمقصود صاحب اور حاجی شکیل احمد صاحب کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے،اور چترال نے ہر حال میں اپنے فائدے کے لئے ان کو جیتانے کا عزم کررکھا ہے۔کیونکہ چترال چاہتا ہے :
یہاں کے کھنڈرنما روڈوں کی حالت بہتر ہو،دیر سے لے کر گلگت تک کم ازکم سو فیصدفٹ چوڑی شاہراہ ہو۔ ارندو روڈ،ارسون روڈ،بیوڑی روڈ،شیشی کوہ روڈ، بمبوریت روڈ،گرم چشمہ روڈ، گولین روڈ،پریئیت اور پستی روڈ،لوٹ اویر روڈ،تورکہو روڈ،بروغل روڈکی توسیع وتعمیر ہو ۔یہاں کے لوگوں کو سبسڈائز ریٹ پر بلا ناغہ بجلی مہیا ہو۔۔۔۔یہاں کے لوگوں کو سبسڈائزد ریٹ پر گندم مہیا ہو۔۔۔۔یہاں کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہترین سہولیا ت موجود ہوں،انسانی صحت وقیمتی جانوں کو محفوظ بنانے کے لئے چترال بھر کے پسماندہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ قائم کئے جائیں۔۔۔۔یہاں ضرورت کے مطابق جنرل بوائز وگرلز کالجز قائم کئے جائیں،میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کا قیام عمل میں لایا جائے،چترال یونیورسٹی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ہرممکن تعاون کویقینی بنایا جائے۔۔۔۔ہر گھر میں پینے کے لئے صاف وشفاف پانی کا انتظام کیا جائے۔۔۔۔بے روزگار نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے انہیں ٹیکنیکل سکلز پروگرام کے تحت تربیت دی جائے۔۔۔۔یہاں کے قدرتی وسائل (پانی،جنگلات اور پہاڑوں) سے اس طرح استفادہ کو یقینی بنایا جائے کہ جس سے براہ راست فائدہ اہلِ چترال کو پہنچے۔۔۔۔ مختلف پیکیجز کے ذریعہ غرباء ومساکین کے ساتھ ہر ممکن تعاون کو یقینی بنایا جائے۔۔۔چترال کے قدرتی حسن کو برقراررکھنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔
"چترال پارٹی” نے بہت سوچا کہ یہ سارے کام کون کرسکتا ہے؟ کس میں ایسی اہلیت ہے کہ جس سے توقع کی جاسکے؟بڑی سوچ بچار کے بعد "چترال پارٹی” نے محمد طلحہ محمود صاحب کو این اے ون اور مولانا فیض محمد صاحب کو پی کے ٹو اور حاجی شکیل احمد صاحب کو پی کے ون کا ٹکٹ تھما دیا،اس یقین کے ساتھ کہ یہ سارے نئے چہرے ہیں۔”چترال پارٹی” نے مولانا عبد الاکبر صاحب اور شہزادہ افتخارالدین صاحب اور سلیم خان صاحب کو اس لئے ٹکٹ جاری نہیں کیا کیونکہ یہ سارے آزمائے ہوئے ہیں،آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا جہالت اور ضیاع ِوقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا،دس سال مولانا صاحب کو چترال نے عزت بخشی ، اُن کو اپنا نمائندہ بنایا لیکن اُن کی توجہ بدین ،تھرپارکر اورملتان کی طرف ہی رہی،شہزادہ افتخارالدین صاحب کو پانچ سال اور ان کے والد صاحب کوچترال نے پچیس سال عزت بخشی،لیکن چترال آج کہاں کھڑا ہےہر ایک کے سامنے ہے،شاید یہ لوگ چاہتے ہی نہیں کہ چترال ترقی کرے،ان کی نظر ہمیشہ اپنے خاندان کے گرد گھومتی آئی ہے۔سلیم خان صاحب تقریباً دس پندرہ سال کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ رہے ہیں،لیکن ان کی ساری توجہ اپنے لئے مختلف جگہوں میں گھر بنانے اور لٹکوہ وچترال کے عوام کو چھوڑ کراپنے رشتہ داروں کی طرف رہی،دوسری بات یہ کہ آخرانہی لوگوں کو کب تک آزمایا جائے،اور یہ لوگ کسی دوسرے کو کیوں آگے آنے نہیں دیتے؟،رہ گئے جناب عبداللطیف صاحب ،تو وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر کونسا تیر ماریں گے؟دس سال کے پی کے میں ان کی پارٹی کی حکومت رہی چترال کے لئے کوئی ایک بھی پراجیکٹ نہیں لاسکے، اب کی بار ان کی حکومت نہ مرکز میں اور نہ ہی صوبے میں ہونے کا امکان ہے تو ان کو ووٹ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے 2018ء میں مولانا عبد الاکبر صاحب کو ووٹ دینے کا کڑوا تجربہ ہوا۔
"چترال پارٹی ” نے انتہائی سوچ بچار کے بعد اپنا ٹکٹ سینیٹرمحمد طلحہ محمود صاحب کو اس لئے دیا کیونکہ:
وہ بکیں گے نہیں۔۔۔۔۔انہیں پیسوں کی ضرورت نہیں جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اٹھارہ سال پارلیمنٹ کا ممبر رہنے کے باوجود حکومت سےتنخواہ تک نہیں لی۔۔۔۔۔۔انہیں شہرت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ 2006ء میں سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے اور 2012ء میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات اور داخلہ کے بھی سربراہ رہے ہیں۔ وہ سینیٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹیوں برائے کابینہ سیکرٹریٹ اور کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ، پیٹرولیم اور قدرتی وسائل، خزانہ ، اقتصادی امور، شماریات، منصوبہ بندی، ترقی اور ملازمین کی بہبود کے فنڈ کے رکن بھی رہے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ خدمت ِ خلق کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ اپنے خاندان اور برادری کو کسی دوسری برادری پر ترجیح نہیں دیں گے جیسا کہ بعض نمائندگان ایسا کرتے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ بین الاقوامی شخصیت ہیں۔۔۔۔۔۔افغانستان،فلطین،شام ،غزہ ،عراق ا ور ترکی سمیت پوری دنیا میں وہ رفاہی کام کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے فاونڈیشن سے بھی چترال کے مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ان کے دل میں امت ِ مسلمہ کا درد ہے جس کا بہترین ثبوت ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ان کی کوشش ہے۔۔۔۔۔وہ اگر چترال کا نمائندہ ہوں گے تو یقیناً انہیں کوئی اچھی وزارت مل جائے گی،جس کے قلمدان کو وہ چترال کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کریں گے۔باقی امیدواراں اگر جیت جائیں تو صرف ایم این اے ہوں گے،جنہیں اپنی تنخواہ اور الاونس کی فکر ہوگی بس۔اور چترال وہیں کا وہیں رہ جائےگا۔
اگر تم واقعی چترالی ہو،اور اس چترال شہر کو اپنا محبوب سمجھتے ہواور اس پر تمہیں فخر ہے،اور اس چترال کو بنانا اور سنوارنا چاہتے ہو تو آئیے یہ تہیہ اور عزم کرلیں کہ اس بار صرف اور صرف "چترال پارٹی” کے امیدواراں سینیٹر محمد طلحہ محمود صاحب،مولانا فیض محمد صاحب اور حاجی شکیل احمد صاحب کو ووٹ دیں گے،تاکہ چترال بھی پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح ترقی کرے۔
سینیٹر محمد طلحہ محمود صاحب!مولانا فیض محمد صاحب! حاجی شکیل احمدصاحب! آپ کو اہلِ چترال پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہیں اس توقع اور امید کے ساتھ کہ آپ جیتنے کے بعد اپنی بہترین صلاحیتیں چترال اور اہلِ چترال کی فلاح وبہود کے لئے بروئے کار لائیں گے۔