سیاحوں کی جنت: چترال
یہ آرٹیکل پہلے آج ٹی وی کے ویب سائیٹ میں شائع ہوئی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر یہاں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے۔
چترال پاکستان کے چند خوبصورت مقامات میں سرفہرست ہے، جس کے سربفلک برف پوش پہاڑ، دریا، دلکش وادیاں ، آبشار، جھرنے اور سرسبز ، پھلدار اور سروقد درخت سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑلیتے ہیں۔ چترال پاکستان کے انتہائی شمالی کونے پر واقع ہے۔ یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں اپنے تمام تر فطری حسن کے ساتھ ہے جو سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ ریاست کے اس حصے کو بعد میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن سے منسلک کیا گیا۔ رقبے کے لحاظ سے یہ صوبہ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
اپنے منفرد جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اس ضلع کا رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے تقریباً پانچ مہینے تک منقطع رہتا ہے۔ اپنی مخصوص پُر کشش ثقافت اور پُر اسرار ماضی کے حوالے سے چترال کی جُداگانہ حیثیت نے سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی کافی اہمیت اختیار کر لی۔ موجودہ دور میں وسطایشیائی مسلم ملکوں کی آزادی نے اس کی اہمیت کو کافی اجاگر کیا۔
چترال جانے کے دو طریقے ہیں، فضائی اور زمینی ۔ اسلام آباد اور چترال کے درمیان ہفتے میں دودن جمعہ اور اتوار کو قومی ائیرلائن پی آئی اے کی پروازیں چلتی ہیں۔ اسی طرح پشاور سے بھی جمعہ اور اتوار کو چترال پروازیں چلتی ہیں۔ اس کے علاوہ سڑک کے راستے بھی سیاح اور مقامی لوگ چترال جاتے ہیں۔ اسلام آباد سے چترال کا فاصلہ 437 کلومیٹر ہے اور ساڑھے پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔اس سفر کے دوران اسلام آباد سے روانہ ہوں تو موٹر وے پر چلتے ہوئے پہلے پشاور آتا ہے۔ پھر مالاکنڈ سے گزرتے ہوئے چترال پہنچتے ہیں۔ اسی طرح پشاور سے بھی بذریعہ سڑک چترال جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے مقابلے میں پشاور سے چترال کا سفر آسان ہے۔ پشاور سے آگے بڑھتے ہی دلفریب مناظر شروع ہوجاتے ہیں ۔ مالاکنڈ سے آگے بڑھتے ہی دریائے چترال اپنی تمام دلفریب رعنائیوں کے ساتھ سیاحوں کو لبھانا شروع کردیتا ہے اور وہ اپنے موبائل سے اس کی فوٹوز اور ویڈیوز بناتے چلے جاتے ہیں۔
دیر سے آگے بڑھیں تو لواری سرنگ سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔یہ سرنگ دیر اور چترال کے درمیان کوہ ہندوکُش میں درہ لواری میں واقع ہے۔ یہ سرنگ 26ارب 95کروڑ روپے کی لاگت سے جون 2017میں مکمل ہوئی ۔ اس کی لمبائی دس کلومیٹر سے کچھ زائد ہے۔ اس کی وجہ سے پشاور اور چترال کا فاصلہ چودہ گھنٹے سے کم ہوکر سات گھنٹے رہ گیا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ سرنگ بند رہتی ہے، سیاح تو وہاں کا رخ ہی نہیں کرتے ۔
البتہ مقامی لوگوں کو افغانستان جاکر پشاور آنا پڑتا ہے۔
چترال کے حسین شہر میں کئی ہوٹل اور ریسٹ ہاؤس ہیں، ان کے علاوہ پی ٹی ڈی سی کا موٹیل بھی ہے۔ جہاں ہر طرح کی سہولت میسرہے۔یوں تو پورا چترال ہی فطری حسن سے مالامال ہے ، لیکن ان میں ترچ میر کی چوٹی قابل ذکر ہے ۔ یہ ہندوکش پہاڑی سلسلہ کی بلندترین چوٹی ہے اور سطح سمندر سے پچیس ہزار فٹ سے زائد بلند ہے۔ چترال کی سیر کے دوران اس چوٹی کو سر کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہاں سے طلوع و غروب آفتاب کے مناظر دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں ۔
ہر علاقے کی منفرد ثقافت اور تاریخ ہوتی ہے اور اسے مختلف صورتوں میں محفوظ کیا جاتا ہے ، اسی طرح چترال میوزیم بھی اپنے اندر ماضی کی بہت سی داستانیں سموئے ہوئے ہے۔ اسے 8؍جولائی 2010کو تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے قیام کا بنیادی مقصد سیاحوں کو علاقے کے ثقافتی ورثے سے روشناس کرانا تھا۔
علاقے کی شاہی مسجد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے، اسے علاقے کے حکمران شجاع الملک نے 1924میں تعمیر کرایا تھا۔ اسے خالص سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا اور اس میں کندہ کاری اور پچی کاری بہت مہارت سے کی گئی۔
شاہی مسجد سے کچھ فاصلے پر ایک عالیشان شاہی قلعہ ہے ۔ اسے چودہویں صدی عیسوی میں راجہ نادر شاہ کی رہائش کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ 1977 میں اسے شاہ افضل دوم نے بحال کیا ۔ اب یہ چترال کے علامتی سربراہ فتح الملک ناصر کی ذاتی جائیداد ہے۔
چترال کی سرزمین اپنے اندر بہت سے اسرار سمیٹے ہوئے ہے، گرم چشمہ بھی ان ہی میں شامل ہے۔ اس میں موسم بہار میں بھی گرم پانی ہوتا ہے۔ آس پاس کے تمام چشموں اور آبی گزرگاہوں کا پانی برف سے زیادہ سرد ہے، مگر اس میں گرم پانی ہوتا ہے۔ وہاں تک جانے کے لئے چترال کے شمال میں جیپ پر 45میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں بہت سے لاعلاج امراض کی شفا ہے ۔
بلند وبالا پہاڑوں اور سرسبز و شاداب زمین کے درمیان برموگھلشٹ ہے، جو چترال میں گرمیوں کی مشہور تفریح گاہ ہے۔ یہ چترال سے صرف ساڑھے چودہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سیاح اس جگہ دونوں سیزن میں آتے ہیں، کیونکہ گرمیوں میں یہاں پیراگلائیڈنگ اور سردیوں میں اسکی انگ ہوتی ہے ، وہاں کا ہر موسم سہانا ہے۔
دریائے چترال کے ساتھ وادی آیون بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ چترال میں بہترین پکنک اسپاٹ ہے ، جو بلند وبالا پہاڑی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے اور وہاں کے سبزہ زار نے ماحول کو مزید سحر انگیز بنا دیا ہے۔وادی چترال سے چارگھنٹے کے سفر کے بعد مشہور زمانہ شیندور پولو گراؤنڈ ہے جہاں ہر سال پولو کے قومی اور بین الاقوامی میچ ہوتے ہیں۔ پولو وادی چترال کا انتہائی مشہور کھیل ہے ۔ اس کے علاوہ چترال میں بھی پولو کے بہت سے چھوٹے گراؤنڈ ہیں ۔ انتہائی مشہور شیندور پولو گراؤنڈ کو دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ تصور کیا جاتا ہے۔ اس سنسنی خیز کھیل کو دیکھنے کے لئے ہزاروں ملکی اور غیرملکی سیاح آتے ہیں۔
ضلع چترال میں سب سے مشہور وادی کیلاش ہے ۔ یہ وادی چترال سے 34کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے۔وہاں جانے کا بہترین زمانہ اپریل سے جولائی تک کا ہے، جب کیلاش والے اپنے تین مختلف تہوار مناتے ہیں۔کیلاش قبیلہ ہی دراصل چترال کی اصل پہچان ہے۔ یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتا ہے جو کہ دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت مشہور ہے۔ لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔
کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو کہ ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ کالاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ قدیم روم کی ثقافت کے اثرات میں کمی آئی ہے اور اب کے دور میں زیادہ تر ہند اور فارس کی ثقافتوں کے زیادہ اثرات واضح ہیں۔ کالاش قبائل کے قبائلی رواج میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ بیسویں صدی سے پہلے تک یہاں رواج نہایت وسیع تھے اور گذشتہ صدی میں ان غیر مسلم قبائل میں ان رواجوں کی پیروی اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی کمی آئی ہے۔
اگر کوئی کیلاش فرد اسلام قبول کر لے تو وہ ان کے درمیان زندگی بسر نہیں کر سکتاتقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو‘‘شیخ‘‘ کہا جاتا ہے اور کالاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں۔
کیلاش میں گھر سے فرار ہو کر شادی کا رواج عام ہے۔ نوعمر لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں بھی گھر سے فرار اختیار کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہ قبائل اس رویہ کو عمومی خیال کرتی ہے اور اس صورت میں جشن کے موقع پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ کئی مواقع پر ذیلی قبیلوں میں اس موضوع پر فساد بھی برپا ہو جاتا ہے۔ امن کے قائم ہونے تک تلخی برقرار رہتی ہے اور صلح عام طور پر ثالث کی موجودگی کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ صلح کے لیے جو رواج عام ہے اس کے مطابق مرد جس کے ساتھ عورت فرار اختیار کرے وہ اس عورت کے خاندان یا پہلے شوہر کو قیمت ادا کرتا ہے۔ یہ قیمت عام طور پر دگنے خرچے کے برابر ہوتا ہے جو اس عورت کا شوہر شادی اور عورت کے خاندان کو ادا کرتا ہے۔
چترال کی سیر کرنے والے اکثر سیاح کوغازی اور گولین سے واقف نہیں ہوتے ۔ یہ وادی چترال سے 14کلومیٹر دور ہیں۔ جہاں فطری حسن اپنے عروج پر ہے۔ سرسبز گھاس، پھلوں سے لدے ہوئے طویل قامت درخت، پھولوں کی نادر اقسام، دلفریب موسم، دلکش آبشار، جھرنوں کا یخ بستہ پانی اور بہت کچھ۔ دیکھنے والوں کو مدہوش کردیتا ہے۔
چترال پاکستان کا قدیمی لوک و تاریخی ورثہ کا حامل ہے،بادشاہ منیر بخاری کے مطابق چترال میں 17 زبانیں بولی جاتی ہیں اور اس کی کل آبادی پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے،لیکن چترال سے تعلق رکھنے والے چترالی زبان کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور صحافی رحمت عزیز چترالی نے چترال میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد چودہ لکھی ہے۔ اس کا رقبہ 14,850 مربع کلومیٹر ہے اور یہ سطح سمندر سے 36ہزار فٹ بلند ہے۔
چترال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جس ریاست نے پہلی بار پاکستان کے ساتھ الحاق کیا وہ چترال کی ریاست تھی اس ریاست نے غیر مشروط پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس ریاست کا بادشاہ ہوتا تھا جسے چترال میں بولی جانے والی زبان کھوار میں میتار اور اردو میں مہتر کہا جاتا تھا اور اس کی بادشاہی کو میتاری کہا جاتا تھا۔ چترال قیام پاکستان کے وقت ریاست چترال کے نام سے مشہور تھا۔ اور ریاست چترال ماضی میں برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ تھا یہ ریاست چترال کی ساری وادیوں اور ضلع غذر پر مشتمل تھی۔
چترال اور اس کے قریبی علاقے اپنے دشوار جغرافیائی حالات کی وجہ سے ارد گرد کی تاریخ سے عموما الگ تھلگ ہی رہے۔ قدیم تاریخی مآخذ میں ان علاقوں کے تذکرے بہت شاذ نادر اور سرسری ہیں۔ خود چترال کے اندر لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر رہا ہے، اس لیے مقامی طور پر تاریخ نویسی کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مقامی طور پر تاریخ نویسی کے سلسلے میں اولیں کام محمد سیر کا ہے جو بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انہوں نے کچھ تاریخی واقعات کو رزمیہ انداز میں منظوم کیا۔ 1892 کے بعد مرزا محمد غفران نے ایک مختصر کتاب چترال کی تاریخ پر لکھی۔
1880 کے بعد چترال میں انگریزوں کا عمل دخل شروغ ہوا تو انہوں نے اس علاقے کے بارے مں لکھنا شروغ کیا۔ Biddulf جو گلگت میں اولین انگریزی ایجنٹ تھے، نے ایک کتاب اس علاقے پر لکھی جس میں دیگر موضوعات کے علاوہ علاقے کی تاریخ پر بھی معلومات شامل ہیں۔
اس علاقے میں انسانی آبادی کے قدیم ترین شواہد قبروں کی صورت میں دریافت ہوئے ہیں جن کی قدامت کا اندازہ تقریباً 3500 سال تک لگایا گیا ہے۔ ان قبروں میں جو اوچشت، دنین، سنگور پرواک اور دیگر کئی مقامات پر دریافت ہوئے ہیں، مُردوں کو ان کے ساز و سامان کے ساتھ دفن کیا گیا ہے۔ ان آثار سے ماہرین اندازہ لگاتے ہیں کہ چترال کی وادی ایک بڑی تہذیب کا حصہ تھی جو وادی پشاور اور شمالی پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی ۔
چترال میں اسلام کی آمد کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں لیکن قبل از اسلام مذاہب کے اثرات بہت تیزی سے مٹ چکے ہیں۔ اگرچہ اسلام کی آمد سے قبل چترال بلکہ ہندوکش اور قراقرم کی ساری وادیاں ایک بڑی ثقافتی علاقے کا حصہ تھیں، لیکن مختلف وادیوں میں مذہب اور ثقافت کا فرق کافی نمایاں تھا۔ اگر ہم صرف چترال ہی کو لے لیں تو اس کے اندر ایک سے زیادہ ثقافتی گروہ موجود تھے۔
اسلام کی آمد سے پہلے اس علاقے میں کسی بڑی مرکزی حکومت کے وجود کی شہادت نہیں ملتی۔ تاہم چھوٹے چھوٹے مقامی حکمرانوں کا تذکرہ روایات میں ملتا ہے۔ ان میں کھو اور کلاش دونوں علاقوں میں ایسے حکمرانوں کے نام ملتے ہیں۔ جیسے کھو علاقے میں بہمن،سو ملک، یاری بیگ، اور کلاش علاقے میں بُل سنگھ، راجہ وائے وغیرہ۔ شاید ان کی حیثیت مقامی قبایلی سرداروں کی سی ہوگی۔
چترال میں اسلام چودھویں صدی میں رئیس اول شاہ نادر رئیس کے ساتھ آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکستان میں جس کو کاشغر کہا جاتا تھا، چنگیز خان کے بیٹے چغتائی کی اولاد کی حکومت تھی، جن کو خان کہا جاتا تھا۔ اس وقت کاشغر ایک خود مختار ریاست تھی۔ اور اس کی یہ حیثیت سترہویں صدی تک برقرار رہی۔ یہ خاندان چودھویں صدی میں اسلام قبول کر چکا تھا اور سنی مکتبہ فکر کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ انہی حکمرانوں نے شاہ نادر کو رئیس بنا کر چترال بھیجا تھا۔
میں نے ملک کے تقریباً تمام خطوں کی سیر کی، لیکن جیسا حسین اور خوبصورت فطری مناظر چترال کے ہیں ، کہیں نہیں ملتے۔ چترال کے باشندے خوش مزاج، مہمان نواز اور کھلے دل والے ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر چترال نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔