جامع علاقائی اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ امریکی اجارہ داری کوایک اور چیلنج

جامع علاقائی اقتصادی شراکت داری معاہدہ” ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) کے15 رکن ممالک کے معاہدے پر دستخط سے جہاں دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی بلاک وجود میں آگیاہے وہیں یہ معاہدہ امریکا کے لیے پوری دنیا میں ایک بڑے تجارتی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے . یہ معاہدہ آسیان کے دس رکن ممالک اور چین ، جاپان، جنوبی کوریا ،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان طے پایاہے چین سمیت 15 ممالک کے راہنماﺅں نے ویڈیو لنک کے ذریعے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی.چینی وزیر اعظم لی پنگ نے کہا کہ یہ معاہد ہ نہ صرف مشرقی ایشیائی خطے کے تعاون کے راستے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ کثیرالجہتی اور آزاد تجارت کی بھی فتح ہے معاہدہ خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے نئی قوت فراہم کرے گا اور عالمی اقتصادی بحالی میں نئی روح پھونکے گا. وزیراعظم لی پنگ نے نشاندہی کی کہ آر سی ای پی پر8برسوں کے مذاکرات کے بعد دستخط ہوئے ہیں جو موجودہ مشکل عالمی صورتحال میں امید کی کرن ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ کثیرالجہتی اور آزاد تجارت عالمی معیشت اور انسانی ترقی کی درست سمت ہے اور کھلا پن اور تعاون ہی باہمی مفادکا لازمی راستہ ہے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اعتماد کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے ،مشرقی ایشیا نیز بنی نوع انسان کے لیے مزید خوبصورت مستقبل کی تشکیل ہوتی رہے گی.یادرہے کہ اس معاہدے کے رکن ممالک دنیا کی کل آبادی کا 30فیصد اور کل تجارت کا25 فیصد بناتے ہیں اور ان ممالک کے جی ڈی پی کی کل مالیت25 ٹریلین ڈالربنتی ہے. معاہدے کا مقصد آنے والے برسوں میں کئی شعبوں میں ٹیرف میں کمی لانا ہے یہ تجارتی معاہدہ اس تجارتی معاہدے کے لیے مزید ایک دھچکہ ہے جسے امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے امریکا کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے فروغ دیا تھا .ایشیا میں امریکی کردار پر سوالات کی فضا میں آزادانہ تجارت کا معاہدہ جنوبی ایشیا، جاپان اور کوریا کے ساتھ اقتصادی شراکت دار کی حیثیت سے چین کی حیثیت کو مزید مستحکم کر سکتا ہے اس طرح دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین علاقے میں تجارت کے ضابطے مرتب کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں آ جائے گا. امریکہ آزادانہ تجارت کے نئے معاہدے کا حصہ ہے اور نہ ہی اوباما کی قیادت میں اس سے پہلے بننے والے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) میں شامل ہے اس طرح دنیا کی سب سے بڑی معیشت ان تجارتی گروپس سے باہر ہو گئی ہے جو تیزی سے ترقی کرتے علاقوں پر محیط ہیں.عظیم تر چین کے لیے بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز کارپوریشن آئی این جی کے چیف اکنامسٹ آئرس پینگ نے کہا ہے کہ آزادانہ تجارت کے نئے معاہدے جس کی تشکیل میں واشنگٹن کے ساتھ گہرے ہوتے اختلافات کی وجہ سے تیزی آئی، کی بدولت چین کو سمندر پار منڈیوں اور ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی. روڈ اینڈ بیلٹ سرمایہ کاری کا اہم چینی منصوبہ ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں چینی بنیادی ڈھانچے اور اثرورسوخ کو فروغ دینا ہے واضح رہے کہ بھارت بھی گذشتہ سال آزادانہ تجارت کے معاہدے سے الگ ہوگیا تھا کیونکہ اسے تشویش تھی کہ اس طرح چین کا سستا مال ملک میں آئے گا جس سے ملکی صنعت متاثر ہو گی تاہم بھارت کے پاس چین کا متبادل کیا ہے اس کے بارے میں مودی سرکار بھارتی ماہرین کے سوالوں کے جواب دینے سے معذور نظر آتی ہے.

تبصرے
Loading...