800 ارب تھے تو وزیراعظم کے آنے کا انتظار کیوں کیا
سندھ حکومت کے پاس 800 ارب تھے تو وزیراعظم کے آنے کا انتظار کیوں کیا- اگر واقعی سندھ حکومت کے پاس 800 ارب روپے ہیں کراچی پر لگانے کے لیے تو وزیر اعظم کے آنے سے پہلے کیوں نہیں اعلان کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار سعد رسول نے سندھ حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سندھ حکومت کے پاس کراچی پر لگانے کے لیے 800 ارب روپے کی رقم موجود تھی تو وزیر اعظم عمران خان کے آنے اور پیکیج کا اعلان کرنے کا انتظار کیوں کیا گیا۔؟ خاتون اینکر پرسن اُم رباب زین کے ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ اس سوال کا جواب ہم ہمیشہ دے سکتے ہیں کہ پاکستان میں کون کتنا پیسہ لگا رہا ہے، لیکن پورے پاکستان میں اور خاص طور پر کراچی کے حوالے سے ایک بات کا جواب ہم آج تک تلاش نہیں کر سکے کہ کون کتنا پیسہ کھا رہا ہے۔
انہوں نے مزید ایک انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے کراچی کے ایک بہت بڑے منسٹر ہیں جنہوں نے چین کی جانب سے تحفتاََ ملنے والی 500 بسوں کو پورٹ سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا، کیونکہ کراچی کے ٹرانسپورٹ مافیا کے وہ بینیفشری تھے، اگر نئی بسیں آ جاتیں تو ان کے مفادات کو نقصان پہنچتا۔5 سے 6 سو کے قریب چین کی جانب سے مفت ملنے والی بسیں پورٹ میں ہی خراب ہو گئیں۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ کراچی پیکیج کے 1100ارب روپے میں سے 750ارب روپے سندھ کی جبکہ 362ارب روپے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، وفاق کراچی پر سالانہ صرف 35ارب روپے خرچ کرے گا، اسد عمر نے حقائق کے منافی بات کی ہے۔مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کی ترقی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا مل بیٹھنا خوش آئند ہے، پیکیج میں 750 ارب روپے سندھ حکومت جبکہ 362 ارب روپے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، وفاقی حکومت کراچی کے لیے اپنے بجٹ میں سے ہرسال صرف 35 ارب روپے خرچ کرے گی، کراچی سرکلر ریلوے کے لیے چینی حکومت سے لیا گیا قرضہ سندھ حکومت ادا کرے گی۔ وہ نجی ٹی وی کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کررہے تھے۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ حقائق کو صحیح پس منظر میں پیش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، اسد عمر نےحقائق کے منافی بات کی اس کا جواب مجھے دینا پڑے گا، ہم کوئی بھی بات کرتے ہیں تو جواب میں یہ لوگ الزام تراشی پر آجاتے ہیں، جب بھی حقائق کو مسخ کرنے والا بیان دیا جائے گا تو دوسری طرف سے جواب آئے گا، کورونا کے زمانے میں بھی سندھ حکومت کا مؤقف حقائق پر مبنی ہوتا تھا، ہم جو این سی او سی میٹنگ میں بات کرتے اسے ہی میڈیا پر بتاتے تھے۔