گھریلو مرغبانی کے ذریعے روزگارکی فراہمی

موماً گھروں میں دیسی مرغیاں پالی جاتی ہیں جو نہ صرف گھریلو ضرورت کے لیے انڈے فراہم کرتی ہیں بلکہ بوقت ضرورت ان کو ذبح کر کے ان کے گوشت کوبھی استعمال کیا جاتاہے کسی مرغی خانے سے چند مادہ چوزے اور حسب ضرورت ایک یا دو نر چوزے خرید کر پال لیے جاتے ہیں یا پھر انڈے حاصل کر کے کسی کڑک مرغی کے نیچے رکھ کر ان سے چوزے نکلوالیے جاتے ہیں جنہیں پھر ایک طویل اور صبر آزما اور انتہامشکل کے بعد جوان کیاجاتاہے۔عموماً نصف سے بھی کم مرغیاں انڈے دینے کے قابل ہوتی ہیں جو برائے نام خوراک پر گزارہ کر کے اپنی مرضی کے مطابق انڈے دیتی ہیں چونکہ روایتی انداز مرغیاں پاتے ہوئے ان کے ماحول کی صفائی کا خاص خیال نہیں رکھاجاتااس لیے ان میں بیماریوں کے پھیلنے کا بھی کافی اندیشہ ہوتاہے اور بعض اوقات کافی مرغیاں اموات کا شکار بھی ہوجاتی ہیں دیسی مرغیوں کی اوسط پیداوار 70سے80انڈے سالانہ ہوتی ہے۔جس میں ان کی واراثتی خصوصیات نگہداشت اور پیداوار کے دوران خوراک وغیرہ کاخاص عمل دخل ہے ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین پولٹری نے گھریلو یا دیہی سطح پر مرغبانی کو ایک نئے انداز سے چلانے کا منصوبہ بنایاہے جس میں پہلے سے تیار شدہ مرغیاں خاص طور پر وہ مرغیاں جو اپنا پہلا پیداواری سال مکمل کر چکی ہیں انہیں ری کنڈیشن کر کے گھریلو سطح پر انڈے حاصل کرنے کے لیے رکھاجاسکتاہے یہ مرغیاں اپنے حسب و نسب کے اعتبار سے بڑی عمدہ خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں اور دیسی مرغیوں کے مقابلے میں صرف ایک سال میں200سے بھی زائد انڈے دینے کی اہلیت رکھتی ہیں ان مرغیوں نے چونکہ اپنا ایک پیداواری سال انڈے دیتے ہوئے گزارا ہوتاہے اوراپنی نگہداشت اور پرورش اور پیداوارکے دوران چونکہ حفاظتی ٹیکہ جات کے ایک مکمل نصاب سے گزر چکی ہوتی ہیں اس لیے ان میں متعدی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔تو ری کنڈیشننگ کے اگلے پیداواری دورمیں ان کی کارکردگی ہمارے دیہی ماحول میں تسلی بخش رہتی ہے۔ری کنڈیشنڈ مرغیوں سے حاصل ہونے والے انڈے سائز کے اعتبار سے دیسی انڈوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور پہلے انڈے سے لیکر آخری انڈے تک انتہائی معقول سائز کے انڈے آخر تک حاصل ہوتے رہتے ہیں ری کنڈیشننگ کی ٹیکنیک کی بدولت چوزوں کی عمر کے ابتدائی دور میں آنے والی مشکلات اور پیچیدگیوں کو رفع کر دیاگیاہے جس کے دوران چوزے ابتدائی دور میں کافی تعداد میں ضائع ہو جایاکرتے تھے اورلاگت بھی کافی اٹھ جاتی تھی اور سب سے بڑھ کر آمدن کے لیے کم از کم چھ سات ماہ انتظار بھی کرنا پڑتاتھا جبکہ ری کنڈیشنڈ مرغیاں لے کر آپ پہلے دن ہی سے انڈے حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور گھریلو ضرورت سے زائد انڈے اپنے ہمسایوں وغیرہ کے ہاں فروخت کئے جاسکتے ہیں یوں ری کنڈیشننگ کی اس ٹیکنیک نے جس طرح کمرشل فارمنگ میں ایک انقلاب پیدا کردیاہے تواس کے ثمرات سے دیہی مرغبانی بھی کماحقہ مستفید ہوسکے گی اوریو ں دیہی آبادی کی روزانہ آمدن میں اضافہ کر کے اس کے معیار زندگی کو کہیں بہتر بنایا جاسکتاہے۔
ابتدائی طور پر کم سے کم 15ری کنڈیشنڈ مرغیوں سے گھریلو مرغبانی شروع کی جائے اوران کے لیے باقاعدہ رہائش کا بندوبست کیاجائے۔لکڑی سے بناہوا3×4مربع فٹ سائز کا ڈربہ 15مرغیوں کے رات کو آرام کرنے اورانڈے دینے کے لیے مناسب رہے گا۔ڈربے کے اطراف میں اور فرش پر لوہے کی جالی لگانا بہتر رہے گی اوراسے کم از کم زمین سے ایک فٹ اونطاکھڑاہونا چاہئے تاکہ مرغیوں کی بیٹھیں اور پر وغیرہ نیچے زمین پر بچھی پلاسٹک شیٹ پر گر سکیں اور مرغیاں کسی قسم کی گندگی اور بیماری سے محفوظ رہ سکیں ڈربے میں ایسے بڑے سوراخوں سے پرہیز کیا جائے جن سے چڑیاں اور دوسرے پرندے اس کے اندر آجاسکیں رات کے وقت ڈربے کو سکی کمرے میں رکھنابہتر رہے گا تاکہ مرغیاں موسمی اثرات سے بچ سکیں اور سردیوں میں دن کے وقت ڈربے میں رکھاجاسکتاہے اور یوں مرغیاں بھی دن کے وقت دھوپ سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں یاد رہے کہ مرغیوں کو کسی صورت میں ڈربے سے باہر نکالنا نہیں چاہئے بلکہ ڈربہ ہی مرغیوں سمیت اندر یا باہر دھکیل دیاجائے اوردن کے پہلے حصے میں جبکہ مرغیوں کو دھوپ میں رکھاجائے تو انہیں گھر کا بچاکچا کھاناسبزی کی بچی کھچی کترن اور مفت حاصل کئے ہوئے صاف صاف چھیچھڑے ڈالے جاسکتے ہیں جبکہ پچھلے پہر ان کوخوراک کی کل ضرورت کا تین چوتھائی حصہ کمرشل فیڈ کی صورت میں پیش کیاجائے گا15ری کنڈیشنڈ مرغیوں کے لیے تقریباً ایک کلوگرام کمرشل فیڈ فی یوم مناسب ہوگی۔خوراک اور پانی کے برتن ڈربے کے باہر نصب کریں اوران کی صفائی کاخاص خیال رکھاجائے تاکہ کسی قسم کی پھپھوندی اور دوسری گندگی سے مرغیوں کی صحت اور پیداوار متاثر نہ ہوسکے۔دن میں کم از کم 4-3دفعہ تازہ ٹھنڈا میٹھا اور جراثیموں سے پاک پانی مرغیوں کے لیے ہر صورت بدلنا چاہئے۔
ہر دو ماہ کے بعد مرغیوں کو رانی کھیت سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ ضرور لگوانا چاہئے تاکہ اگر مدافعت میں کمی آگئی ہو تو اسے ضرور پوراکیاجاسکے عموماً پینے کے پانی میں حفاظتی ٹیکہ ڈالا جاتاہے مگر کم مرغیوں کی صورت میں زیر جلد ٹیکہ لگانا زیادہ بہتر رہے گا۔
15ری کنڈیشنڈ مرغیاں کم از کم روزانہ 10انڈے ضرور دیں گی جنہیں بازارمیں بیچ کر معقول آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ انڈوں کی فروخت کے سلسلے میں یہ احتیاط برتنی چاہئے کہ کمیشن ایجنٹ یا دوکاندار کو بیچنے کے بجائے انڈے سیدھے صارف تک پہنچائے جائیں تاکہ منافع کی شرح کو بڑھایاجاسکے۔
چھ ماہ گزرنے کے بعد مرغیوں کوبازار میں بیچا جاسکتاہے اور ان کی جگہ ایک دوسرا ری کنڈیشنڈ یونٹ دوبارہ لیکر اسے شروع کیاجاسکتاہے اگلے چھ ماہ کے لیے چاہیں تو مصری مرغیوں کا یونٹ لے لیں ان سے بھی خاظر خواہ منافع کمایا جاسکتاہے اوراگلے چھ ماہ کے لیے موسمی لحاظ سے مصری مرغیاں زیادہ مناسب رہیں گی اور چاہیں تو دوبارہ ری کنڈیشنڈ مرغیاں لیکر شروع کر سکتے ہیں مگر گرمیں کے موسم میں انہیں ٹھنڈک پہنچانے کا مناسب انتظام کیاجائے۔ڈربے کو دن کے وقت کسی کمرے میں رکھ کر پنکھے سے ٹھنڈی ہواپہنچائی جائے یا رات کے وقت کھلے صحن میں رکھاجائے تاکہ مرغیاں گرمی سے بچ سکیں اور ان کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر نہ ہو۔ مرغیوں کو تازہ اورصاف پانی کی ہروقت دستیاب ہوناچاہئے، ہو سکے تو ہر گھنٹے بعد پانی تبدیل کرتے رہیں اور بہت زیادہ حبس اور گرمی کی صورت میں سبز چارہ دیں تاکہ مرغیاں سٹریس سے محفوظ رہ سکیں اوران کی صحت بھی متاثر نہ ہو۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ مرغیاں پالنے کے لیے کھلی جگہ درکار ہوتی ہے مگر اس منصوبے کی رو سے اگر جائزہ لیاجائے تو ایسا ہرگز نہیں بلکہ تھوڑی جگہ پر پڑے ہوئے ڈربے میں آپ کافی مرغیاں رکھ سکتے ہیں اوران سے انڈے حاصل کر سکتے ہیں مرغیوں کو ہمہ وقت ڈربے میں بند رکھنا برانہیں بلکہ مناسب اور روشن اور ہوادار ڈربے میں بند رکھنے سے مرغیوں کو بیماریوں میں مبتلا ہونے سے کافی حد تک بچایا جاسکتاہے اور ساتھ ہی ساتھ لیبر پر خرچہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتاہے کیونکہ مرغیوں کو اگر ڈربے سے باہر نکال دیاجائے تو انہیں واپس گھیر کر ڈربے میں بند کرنے میں کافی وقت لگے گااور ساتھ دقت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اس کے علاوہ دوسری مرغیوں کے ساتھ پھرنے سے بیماری کا اندیشہ بھی رہے گا۔

تبصرے
Loading...