چترال کے خوبصورت علاقے گولین میں ایک بار پھر سیلاب نے تباہی مچادی۔ پچھلے سال جولائی میں سیلاب سے جو نقصان ہوا تھا اس کا ازالہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک بار پھر سیلاب آیا۔

چترال(گل حماد فاروقی) خوبصورت وادی گولین میں ایک بار پھر سیلاب نے تباہی مچادی۔ اس وادی میں پچھلے سال بھی GLOF یعنی برفانی تودہ پھٹنے سے تباہ کن سیلاب آیا تھا جس نے تمام انفراسٹرکچر تباہ کی تھی اور علاقے کے لوگ پانی کی پائپ لائن بحال کرتے ہوئے تین قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی تھی۔
اس مرتبہ ایک بار پھر سیلاب اور گلوف کی وجہ سے سیلا ب آیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سیلاب میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر مالی طور پر کافی نقصان ہوا ہے۔
وادی گولین کو جانے والا سڑک تباہ ہوا ہے جبکہ پُل کی سائڈ وال بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے جس کی وجہ سے اس وادی میں آمد و رفت ممکن نہیں رہا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے اکبر عزیز، عبد العزیز،اکبر ولی شاہ کے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ ایک دینی مدرسہ کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
اسی طرح علی نور خان، عصمت خان، آمان ربی، رحمت نبی، رحمت ظاہر شاہ کے مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ عبد الرزاق اور رحمت ظاہر شاہ کے مویشی حانے بھی مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے علاقے میں ایک مسجد کو بھی جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ اکرام نامی شحص کی گاڑی بھی سیلاب کا نذر ہوگیا۔
وادی میں ایک چھوٹے پن بجلی گھر کو بھی نقصان پہنچا ہے جبکہ تین پلوں کی پشتوں یعنی سائڈ وال کو بھی نقصان پہنچا ہے اور سڑک بھی میں روڈ کے قریب ہی تباہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس وادی میں آمد و رفت ممکن نہیں رہی۔علاقے کے لوگ پہاڑوں کے چوٹیوں پر پیدل چڑھ کر اپنے گھروں یا عزیز و اقارب سے ملنے کیلئے نہایت دشوار گزار راستوں پر چل کر جانے پر مجبور ہیں۔
علاقے کے سماجی کارکن نبی خان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال سیلاب نے جو تباہی مچائی تھی وہ ابھی بحال بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک بار پھر سیلاب آیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ اگر حکومت نے ایمرجنسی نافذ نہیں کیا تو لوگوں کی زندگی گزارنا نہایت دشوار ہوگا کیونکہ جب تک یہاں برفانی تودہ پڑا ہے تب تک سیلاب آتا رہے گا۔
بالائی گولین کے سفیر اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ ہم کافی لوگ نیچے محصور ہوگئے جبکہ ہمارے عزیز و اقارب گولین میں پھنس چکے ہیں ان کے ساتھ رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ اور انتظامیہ ہمارا مواصلاتی نظام بحال کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے کیونکہ اس وادی میں پیدل جانے کا بھی راستہ نہیں ہے نہ ہی کوئی ٹیلیفون یا موبائیل فون کام کرتا ہے تاکہ اپنے اہل و عیال کا خیر خیریت دریافت کرسکے۔
علاقے کے لوگوں نے اعلےٰ حکام اور چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ اس وادی کے سڑک میں برساتی نالے پر جو آر سی سی پُل تعمیر ہوئے ہیں ان کی سائڈ وال یعنی پُشتوں کو مٹی سے بھرا گیا تھا جو ایک معمولے ریلے میں بہہ گئے اگر یہاں کنکریٹ یا کم از کم پتھر کا بھی دیوار ہوتا تو آج یہ پل بچ جاتے اور لوگوں کا رابطہ منقطع نہیں ہوتا۔
وادی گولین کے لوگوں نے حکام سے ان لوگوں کی جان و مال کی مستقل بنیادوں پر حفاظت کرنے کیلئے جامع منصوبہ بندی کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ جب تک گلئشیر موجود ہے سیلاب کا حطرہ موجود رہے گا۔

تبصرے
Loading...