وزیراعظم کے خلاف دائر توہین عدالت کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد
واب داخل نہ ہونے کی صورت میں عدالت ان کی عدم موجودگی میں ہی کیس کی سماعت کرے گی.عدالت
مقامی عدالت نے سابق رکن صوبائی اسمبلی فوزیہ بی بی کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دائر توہین عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 8اگست تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی ہے. ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالمجید نے حکم دیا کہ اگلی تاریخ تک جواب داخل نہ ہونے کی صورت میں عدالت ان کی عدم موجودگی میں ہی کیس کی سماعت کرے گی پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی نے عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف عائد کیے گئے بے بنیاد الزامات لگانے کے ذریعے بدنام کرنے پر 50کروڑ روپے ہرجانے کی وصولی کا مقدمہ دائر کیا ہے جہاں عمران خان نے پریس کانفرنس کے دوران ان پر سینیٹ کا ووٹ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا تھا.ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حبیب قریشی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور اس معاملے پر اس کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست جمع کراتے ہوئے کہا کہ 14 دسمبر 2019 کو عدالت کی جانب سے دیے گئے حکم کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی. حبیب قریشی نے استدعا کی کہ 12 اکتوبر کو ہائی کورٹ مذکورہ اپیل کی سماعت کرے گی لہٰذا جب تک عدالت اس فیصلے کا فیصلہ نہیں کرتی ہے اس وقت تک موجودہ ٹرائل کورٹ اس مقدمے کی سماعت ملتوی کر دے جب عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ نے فوری مقدمے میں مقدمے کی سماعت روکنے کے لیے کسی بھی حکم امتناع کو جاری کیا ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا جس کے بعد عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کوڈ آف سول پراسیجر کے ضابطہ آرڈر VIII رول 10 کے تحت مقدمہ میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی.مذکورہ قانون کے تحت اگر کسی فریق سے تحریری بیان کی ضرورت ہو اور وہ عدالت کے مقرر کردہ وقت کے اندر وہ پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالت اس کے خلاف فیصلہ سنائے گی یا اس کی مناسبت اس مقدمے کے سلسلے میں حکم دے سکتی ہے وکیل سید غفران اللہ شاہ مدعی کی طرف سے پیش ہوئے اور دعویٰ کیا کہ عدالت کی جانب سے عمران خان کو متعدد بار تحریری جواب داخل کرنے کے احکامات جاری کیے جانے کے باوجود جواب داخل نہیں کیا گیا۔
اس نے استدلال کیا کہ مدعا علیہ گذشتہ دو سالوں سے تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے.14 دسمبر کو عدالت نے عمران خان کی جانب سے مقدمے کو خارچ کرنے کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی تھی جہاں انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ مقدمہ قابل سماعت نہیں، مدعا علیہ نے موقف اپنایا تھا کہ مدعی (فوزیہ بی بی) کی جانب سے جس پریس کانفرنس کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ عمران خان نے پارٹی کی انضباطی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کی تھی. انہں نے کہا کہ برخاستگی کے حکم کو عمران خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور یہ مقدمہ تاحال زیر التواءہے اس سے قبل عمران خان کی جانب سے سی پی سی کے آرڈر VII کے رول 10 کے تحت ایک اور درخواست دائر کی گئی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ مقدمہ خارج کردے کیونکہ زیر بحث پریس کانفرنس اسلام آباد میں کی گئی تھی جو موجودہ عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے.تاہم اس درخواست کو بھی عدالت نے 30 جنوری 2019 کو خارج کردیا تھا یہ ہتک عزت کا مقدمہ جون 2018 میں ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے تحت دائر کیا گیا تھا، اس مقدمے میں واحد مدعا علیہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان تھے جو بعد میں وزیر اعظم بنے. فوزیہ بی بی نے دعویٰ کیا ہے کہ 3مارچ 2018 کو ہوئے سینیٹ انتخابات میں انہوں نے اپنی پارٹی کے تمام امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ہدایات پر عمل کیا تھا انہوں نے بتایا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد مدعا علیہ نے باضابطہ طور پر جھوٹے اور بے بنیاد زبانی بیانات پھیلانا شروع کر دیے تھے