تعلیم کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے ؟

مجھے اج بھی یاد ہے میرے استاد محترم جب کلاس میں اتے تو سب بچے احترام سے کھڑے ہو جاتے اور اگر استاد محترم کلاس میں نہ ہوتے تو کوی بچہ ان کی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش نہ کرتا اگر کوئی بچہ یہ غلطی کرتا تو سب بچے بیک وقت یہ نعرہ بلند کرتے اوے یہ سر کی کرسی ہے تو وہ بچہ سہم کر اس وقت کھڑا ہو جاتا اور اپنی اس غلطی پر شرمندہ ہوتا.مجھے اج بھی یاد ہے اگر کبھی راستے میں استاد محترم سے ملاقات ہو جاتی تو ہم اپنی نظریں نیچی کر لیتے اور آرام سے گزرنے میں اپنی افیت سمجھتے اور گھر پہنچ کر اس چیز کا بھی ڈر ہوتا کہ کل پتہ نہیں سر کیا بولیں گے. لیکن پھر وقت کا پہیہ گھوما میرا طالب علم نمبروں کی لالچ میں ایسا پڑا کہ وہ استاد کا احترام بھول گیا. اور میرے پیارے استاد نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے تعلیم کو کاروبار بنا لیا.بات یہاں تک ہی رہتی تو ٹھیک تھا لیکن نہیں بات اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب استاد نمبروں کی لالچ میں نوجوان بچیوں کی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں. رحیم یار خان والا واقعہ اپ سب کے سامنے ہے جہاں ایک پروفیسر عبدالحسیب بچیوں کی اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا اور ساتھ میں ان کی غیر اخلاقی ویڈیو بھی بناتا رہا یہ سب کچھ اس نے خود قبول کیا اپ اس کی ویڈیو انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں.مجھے یقین تھا اپ میری اس بات اتفاق سے نہیں کرنے گئے لیکن آپ کے اس طرح آنکھیں بند کرنے سے حالات نہیں بدلیں گے. اب میں کچھ اسی باتیں کرنے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے مجھے اپ کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے لیکن میں تیار ہوں اور ہر وہ طالب علم تیار ہے جو اس کا شکار ہوا ہے اور اس عمل  سے گزرا ہے .
یہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی سیاستدان سے کم بدمعاش نہیں ہیں…کیونکہ یہ سب بادشاہ سلامت ہیں… سب کچھ ان کے اختیار میں ہے… پیپر بناتے بھی خود ہیں، چیک بھی خود کرتے ہیں اور نتائج بھی خود بناتے ہیں… یہاں نہ تو کوئی فرضی رول نمبر کا چکر ہے… سامنے نام، ڈگری، سمسٹر اور ڈیپارٹمنٹ سب کچھ مینشن ہوتا ہے….مجھے اس یونیورسٹی سسٹم سے ہی اختلاف ہے جناب…جہاں پروفیسر اپنی مرضی کا مالک ہے… سامنے کھڑا کر کے کہتا ہے…”تمہارا سوال سارا درست ہے..یہ لو… کراس لگا کر کہتا ہے کہ جاؤ کر لو جو بھی کرنا ہے…”مطلب وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میری مرضی… مجھ سے پوچھنے والا کون ہے؟
اور واقعی پوچھنے والا کوئی نہیں…پروفیسر بھرپور بلیک میل کرتے ہیں کبھی فیل کرتے ہیں تو کبھی اس کا تھیسز روک دیتے ہیں کبھی رپورٹ بنا دیتے ہیں تو کبھی کچھ اور دو سالہ ڈگری پانچ سالہ تک پہنچ جاتی ہیں…جیسے پولیس والے پولیس والوں کے پیٹی بھائی ہیں..جج وکیل کے پیٹی بھائی ہیں ٹھیک ایسے یہ پروفیسر بھی ایک دوسرے کے پیٹی بھائی ہیں….
تقریباً پروفیسر حضرات نے اپنی لیب کے سارے اختیارات کسی لڑکی کو سونپ رکھے ہوتے ہیں…. نوازشات ہوتی ہیں.. اپنی گاڑیوں میں پک اینڈ ڈراپ تک دے رہے ہوتے ہیں.. اگر کوئی شکایت درج کروا بھی دے تو کچھ نہیں ہوتا.پہلی بات کہ انکوائری ہوتی ہی نہیں اور اگر ہو جاے تو برائے نام اور پروفیسر کو بے گناہ اور شریف قرار دے دیا جاتا ہے….ایسے پروفیسر صاحبان بھی ہیں جو کچھ لڑکوں سے اس بات کا بدلہ لیتے ہیں کہ وہ لڑکا جس لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے وہ لڑکی پروفیسر صاحب کو پسند ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ پروفیسر صاحب اس لڑکی پر ٹھرکی ہوتے ہیں…. جو یونیورسٹی
کا وی سی ہے اس تک  رسائی حاصل کرنا وزیراعظم سے ملاقات کرنے کے برابر ہوتا.یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کے سب پروفیسر برے نہیں ان میں سے اکثریت اسے ہیں جو اچھے گھرانوں سے ہیں میں اور میں ان کی دل سے عزت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا وہ میرے محسن ہیں.اب اتے ہیں اس سسٹم کی اصلاحات کی طرف . تو سب سے پہلے ہمیں اپنے یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا ہوگا . ہم ایک ایسا نیوٹرل ادارہ بنانے دیں جو یونیورسٹی سطح کے تمام امتحانات منعقد کرے اس سے دو فائدے ہوں گا ایک تو فیصلے میرٹ پر ہوں گے اور دوسرا اجارہ داری ختم ہو گئی . کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ یونیورسٹیاں بنا دیں اس سے میری بہن بٹیاں محفوظ بھی رہی گئی اور اعلی تعلیم میں کوی رکاوٹ بھی نہیں ہو گی .اگر ہم کوی ادرہ قیام نہیں کر سکتے تو کم از کم مارکنگ سسٹم ہی تبدیل کر دیں امتحان لینے والی یونیورسٹی پیپر خود چیک نہ کرے بلکہ دوسری یونیورسٹی ان پیپر کو چیک کرے اور پیپر چیک کرنے والے استاد کا نام خفیہ رکھا جائے. میری درخواست ہے حکمرانوں سے تعلیمی اداروں کے منتظمین سے سب سے پہلے اس سسٹم کو مضبوط کیا جائے.. شفاف کیا جائے… ورنہ تعلیم کے نام پر یہی کچھ چلتا رہے گا اور آگے آگے مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا…
نوٹ:اس کالم کا مطالبہ کسی استاد کی دل آزاری نہیں بلکہ میرا مقصد ان استاد نما بھیڑوں کی طرف توجہ مبذول پے جن کی وجہ سے میرے محسن َبھی بدنام ہو رے ہیں شکریہ�

تبصرے
Loading...