پشاور کی مدر ٹریسا

رات کا کھانا ہوٹل سے کھانے کے بعد دل میں خیال آیا کہ کچھ دیر مٹر گشت کر لینے میں کیا حرج ہے۔اپنے تنہا وجود کو گھسیٹتے ہوئے ارباب روڈ پہنچا اور فٹ پاتھ پر آہستہ شائستہ دھیرے سے چلنے لگا۔میرے اِرد گِرد لوگوں کا ہجوم تھا۔معلوم نہیں اِنکے چہرے تاثرات سے کیوں خالی تھے۔اس شاہراہ پر گداگروں کی پوری فوج پھیلی ہوئی تھی۔سب کے مانگنے اور بانگ لگانے کے طریقے مختلف تھے۔وہاں کچھ تن آساں نِکمے ایک طرف بھیگ مانگ رہے تھے تو دوسری جانب چند عمر رسیدہ افراد بھی نظر آئے جو حق حلال رزق کے خاطر کاروبار لگائے گاہک تلاش کر رھے تھے۔یہ عظم و ہمت کے اعلٰی مثال بزرگ بچوں کے غُبارے، تسبیح ٹوپی،گاڑی صاف کرنے والا رومال،آلو کے تلے ہوئے چِپس،انگوٹھیاں اور عِطر فروخت کرنے میں مگن تھے۔

سبیل احمد

شہر کی ایلِیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والی بیگمات امپورٹڈ پرفیوم کی خُوشبو فضا میں بکھیرے برانڈِڈ ملبوسات کی دکانوں سے باہر نکل رہی تھیں۔اُونچے عہدے والے لوگوں کی گاڑیاں پارکنگ ایریا میں کھڑی کی گئیں تھیں جہاں ایک موٹے پیٹ والا سیکورٹی گارڈ نیم بے ہوش ڈیوٹی دے رہا تھا۔میں اپنے شوق سے مجبور کتابوں کی ایک جدید دوکان میں داخل ہوا۔وہاں بڑے باپ کی چہیتی بیٹیاں کتابیں چھانٹ رہی تھیں اور مغربی لہجے میں انگلش بول رہی تھیں۔ایک شخص جو وضع قطع سے پروفیسر لگتا تھا بہت غرق ریزی سے انگریزی رسالہ پڑھ رہا تھا۔اُس کے گنجے سر کو ماوزے تُنگ اسٹائل کی ٹوپی نے ڈھنپ رکھا تھا۔میری جیب کا حال میرے چہرے سے عیاں تھا شاید اس وجہ سے کسی نے میری طرف توجہ نہیں دی۔میں جس طرح سے اندر گیا تھا اُسی زاویئے سے باہر نکل آیا۔ایک آہ کتابوں کو دیکھ کر میرے سینئہ سوزاں سے نکلی اور شہر کی جگمگاتی جاگتی لہروں میں کھوگئی۔

باہر موسم سرد تھا۔اپنی مالی حیثیت کے مطابق میں نے ٣٠ روپے دے کر پٹھان ریڑھی والے سے کِشمِش اور ریوڑی دل بہلانے کے واسطے خریدے۔ وہ میلے کپڑوں والا صحت مند پٹھان خشک میوہ جات فروخت کر رہا تھا۔وہ تھوڑے وقفے کے بعد کچھ اسطرح لوگوں کو اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔
"دا غہ دہ پستہ دہ بادام دہ "

ایک معذ ور عورت اور اسکے دو کمزور سے بچے گرم انڈے بیچ رھے تھے اور کافی سارے لوگ کھڑے کھڑے انڈے چھیل کر گرم مصالے کی مدد سے پیٹ میں اُتار رھے تھے۔قریبی مسجد سے کوئی مُلا صیب پشتو میں قہرناک ہوکر دوزح کا احوال بیان فر ما رہے تھے۔ایک خوفناک وضع قطع کا آدمی روڈ کے درمیان کھڑے ہوکر فون پر کسے سے بہت تلخ گفتگو کرنے میں مگن تھا اور جزبات کی زیادتی کی وجہ سے ہاتھوں کو پنکھے کی طرح حرکت دے رہا تھا۔میں نظریں زمین پر گاڑے آگے بڑھا اور تھکاوٹ کا احساس ہونے پر جب مزید چلنا مشکل لگنے لگا تو واپس ہوگیا۔

اب میں اپنے رہائشی مکان کی طرف گامزن تھا۔تھوڑا آگے جا کر شارٹ کٹ لیتا ہوا تنگ گلی سے گزر کر ابدرہ روڈ میں داخل ہوا۔ٹریفک مرکزی شاہراہ کے مقابلے یہاں کافی کم تھا۔اسٹریٹ لائٹس کی روشنی ہر سُو پھیلی ہوئی تھی۔میرے قریب سے ایک کلٹس کار شور مچائے بغیر گزر گئی۔آدھے منٹ سے بھی کم وقت میں بہت سارے آوارہ کُتے معلوم نہیں کہاں سے نمودار ہوئے اور اُس کلٹس کے پیچھے بھاگنے لگے۔کُتوں کی تعداد دس سے زیادہ تھی۔ میں حیران ہوا کہ یہ کُتے کیوں سر پٹ بھاگ رہے ہیں۔تجسس کے عالم میں آگے بڑھا اور موڑ کاٹ کر جیسے ہی الغزالی انسٹیٹیوٹ کے سامنے پہنچا ایک عجیب منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ایک خاتون پلاسٹک کے برتن میں دودھ اور روٹی کے ٹکڑے بھگو کر کُتوں کے سامنے رکھ رہی تھیں۔کُتے اس احسان کے بدلے بہت ملائم باریک آوازیں نکال رہے تھے۔شاید وہ اس اعلٰی ظرف رحم دل خاتون کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔۔خاتون بازاری کُتوں کے سر پر تھپکی بھی دے رہی تھیں اور گاڑی سے مزید روٹیاں لا کر ان کے سامنے پلاسٹک کے برتن میں ڈال رہی تھی۔بے زباں مخلوق پیٹ کا دوزخ بھرنے میں مگن تھے۔ آس پاس سے لوگ بے فکری سے گزر رہے تھے لیکن اس بلند صفات خاتون کے اس عمل نے مجھے وہاں روکے رکھا۔میں بجلی کے کھمبے سے ٹیک لگائے یہ سارا منظر بڑے ہی تجسس سے دیکھ رہا تھا۔

جب تمام کُتے تندوری روٹی اور دودھ سے خوب سیر ہوئے تو خاتون نے پلاسٹک کے برتن واپس گاڑی کے ڈِگی میں رکھ دئیے۔اور بغیر وقت ضائع کئے اپنی سِلور کلٹس اسٹارٹ کی اور وہاں سے روانہ ہوگئیں۔کیا پتہ دوسری جگہ بُھوکے انسان انتظار میں بیٹھے ہوں۔بازار کے تمام کُتے ہِلے جُلے بغیر اپنے محسن کی گاڑی کو نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتے رہے۔یہ منظر دل میں اُتر کر سوچنے پر مائل کرنے والا تھا۔

واپسی کے راستے یہ غیر معمولی واقعہ میرے اعصاب پر حاوی رہا۔کُتوں کی مرجھائی ہوئی آنکھیں اور لاغر وجود پھر کھانا ملنے پر اُنکی نرالی حرکتیں میرے زہن میں پیوست ہوکر رہ گئیں۔کچھ دیر پہلے دیکھی ہوئیں انسانی آسائشات اور دلکشی کے سامان بڑے واہیات اور منحوس لگنے لگیں۔ بازار میں چہل پہل کرتے ہوئے فیشن ایبل لباس والے نفیس لوگ مجھے حقیر بے حِس اور اپنے نفس کے غلام نظر آئے۔سڑک کنارے کھڑے ہو کر فاسٹ فوڈ کھانے والی مخلوق انسان اور انسانیت کے احساس سے بیگانہ کسی اور دنیا کے باسی اور اپنی زات میں مگن نرالے انسان معلوم ہوئے۔ جدید تراش خراش والی بیگمات اُس اجنبی خاتون کے سامنے مٹی کے ڈھیر کے مانند تھیں۔اپنی زات کو آسائش فراھم کرنا اور اپنے خواہشات کا مان رکھنا شاید انسانی فطرت کے خلاف عمل ہے۔دوسروں کا درد پالنا اور لاچار مخلوقات کی ضروریات کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا ہی انسان اور انسانیت کی اولین ترجیح ہونی چاہئیے۔

سرِبازار آورہ کُتوں کو کھانا کھلانا کوئی معمولی خدمت نہیں تھی۔یہ فعل حقیقی معنوں میں خراج تحسین کے قابل ہے۔ھمارے معاشرے میں اگر بے زبان مخلوق کو کھانا مہیا کرنا کوئی مقام نہ بھی رکھے تو فکر کی بات نہیں کیوں کہ خداوند خدا کے ہاں اسکا اجر نہایت عظیم اور بُلند ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی دِقت نہیں کہ ابدرہ روڈ کی سڑک پر مدر ٹریسا ایک شاندار اور عظیم خدمت پر معمور تھیں۔”

تبصرے
Loading...