اور والد کا حق
دنیا بھر میں جون کا تیسرا اتوار فادرز ڈے کے طور پر منایا یا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد جہاں اس عظیم رشتے کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔وہیں معاشرے میں والد سے محبت شفقت اور انکی خدمت کے جذبے کو بڑھانا ہے۔ شرعی اعتبار سے اگر والد کے حقوق کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام حقوق میں والدین کے حقوق کو اولیت حاصل ہے۔ اسلامی نظام ذندگی رشتوں سے مزین ہے اور ہر رشتے کے حقوق مقرر ہیں۔لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے اپنی بندگی و اطاعت کے فوری بعد والدین کے حقوق کا ذکر فرما کر اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے کہ اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اسکے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔۔۔ قرآن کریم میں کہیں جگہ والدین کی بڑھاپے میں انکے ساتھ حسن سلوک کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے کیونکہ بڑھاپے میں ہی وہ اولاد کے محتاج ہوتے ہیں اور یہی اولاد کی اصل آزمائش کا وقت ہے ۔۔اسی حوالے سے حضرت علی رضی علیہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ا ف سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ جل شانہ اسے حرام قرار دیتے۔۔حتی کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے لیے دعا کرنے کی بھی تعلیم فرمائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔ رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا۔۔۔ یعنی اے میرے پروردگار ۔۔تو میرے والدین پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں شفقت و رحمت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر گزاری کرنے کا حکم دیا وہیں والدین کا بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ سورہ لقمان میں اللہ کا فرمان ہے کہ ان شکر لی ولد الدیک ۔الی مصیر۔ یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو ۔۔بے شک میری طرف لوٹ کر آ نا ہے۔۔حضرت سفیان بن عینیہ کا فرمان ہے کہ یعنی جس نے پانچ وقت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا اس نے اپنے رب کا شکر ادا کیا ۔اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعائے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔ رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلّم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ والدین سے حسن سلوک کیا ہے تو آ پ نے فرمایا دونوں تیری جنت ہیں اور دونوں تیری جہنم ۔۔۔یعنی ماں باپ سے حسن سلوک پر جنت واجب ہے اور بد سلوکی پر جہنم ۔۔ایک شخص نے سوال اٹھایا کہ اگروالدین ظالم ہوں کیا تب بھی؟ تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ والدین ظالم ہو تب بھی۔۔۔۔۔یعنی انکی اطاعت لازم ہے ۔۔۔لیکن اس صورت میں کہ والدین کفر کا حکم دیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائں اس صورت میں اولاد کو حق ہے کہ انکار کریں لیکن دوسری کسی صورت میں نہیں۔۔۔پھر سوال اٹھتا ہے اولاد کے مال میں والد کے حق کا تو قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ یسالونک ما ذا ینفقون قل ما انفقتم من خیر فللوالدین۔۔ترجمعہ۔۔ آ پ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔۔جسقدر بھی مال خرچ کرو دروست ہے مگر اسکے حقدار تمھارے ماں باپ ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے باقی کے اخراجات کے نسبت والدین پر خرچ کرنے کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔اسی طرح حدیث نبوی سے بھی ثابت ہے کہ اولاد کی مال پر بھی والدین کا حق ہوتا ہے۔ایک بار ایک آدمی رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ میرے پاس مال ہے۔اولاد بھی ہے اور میرے والد محترم میرے مال کا محتاج بھی ہے آپ نے فرمایا انت سما لک لا بیک ۔۔یعنی تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔۔۔۔
اسی طرح دیگر کہیں آیات قرآنی ا حادیث اور اقوال اصحاب ہیں جن سے والدین کی عظمت بیان ہے ۔۔ کہیں مقامات پر والدین کے پیروں کے نیچے جنت کا حوالہ ملتا ہے کہیں والدین کی خدمت کو جہاد سے تعبیر کی گئی ہے تو کہیں بوڑھے ماں باپ کی طرف محض شفقت سے دیکھنے کو صدقہ جاریہ تک کہا گیا ہے ۔۔۔ حتیٰ کہ اسلام والد کی خاطر اسکے بد ترین رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا درس دیتا ہے اس سے اندازہ لگائیں کہ والد کا مقام کیا ہے۔۔۔ان احکامات کے برعکس آ ج مسلم معاشروں میں بننے والے اولڈ ہومز یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے نزدیک باپ کی حیثت کیا رہ گئی ہے۔نوجوان نسل اگر باپ کو اپنی خواہشات پوری کرنے والی اپنا زمہ دار سمجھتی ہے تو ایک چالیس پینتالیس سال کا بیٹا جو خود بھی صاحب اولاد ہو اسکے آگے بوڑھے باپ کی حیثت کیا ہے۔؟ محض میراث کی چابی؟؟مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ بچپن میں ہمارے پالنے والے ۔ہمارے اخراجات اٹھانے والے ہمارے ہر طرح کے زمہ دار جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ہمارے لیے انکی حیثیت گھر کے کونے میں پڑے پرانے فرنیچر سے زیادہ نہیں ہوتی۔۔انکے اگے دو وقت کی روٹی ڈال کر چند ماہ انکے دوائیوں کے اخراجات اٹھا کر ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم نے انکا حق ادا کردیا ہے ۔اگر میں ایمان داری سے بات کروں تو موجودہ دور میں باپ کی حیثیت محض جائیداد بنانے والے مشین کی سی ہے۔۔ یہ سوچ خود ایک باپ کی بھی ہے اولاد کی بھی اور معا شرے کی بھی۔ہمارا معاشرتی مائنڈ سیٹ اپ کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ساری توجہ محض مالی حیثت کو مستحکم کرنے کی طرف لگادی گئی ہے دوسری کسی پہلو پر کوئی توجہ نہیں۔۔ یہی وجہہ کہ آج اولاد کو باپ کی کوئی اچھائی کسی شفقت محبت یا عزت سے کوئی لینا دینا نہیں اسکی ساری توجہ صرف ملنے والی دولت پر ہے۔اج ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے والدین کا برہاپا ذہنی بوجھ بن گیا ہے۔ایسے بھی ہیں جو انکے ساتھ مل بیٹھ کر انکا وقت اچھا بنانے کے بجائے انھیں نیند کی گولیاں کھلا کر گھر کے کونے میں ڈال دیتے ہیں۔ایسے بھی ہیں جو باپ کا ذرا برابر خرچہ اٹھا کر علاقے میں ایسے طرم خان بن کر پھرتے ہیں جیسے ساری عمر باپ نے نہیں بلکہ انھوں نے ہی اپنے باپ کو پالا ہو۔ ہماری گنہگار آنکھوں نے ایسی اولاد بھی دیکھیں ہیں جو جا ئیداد کی لالچ میں مرے ہوئے باپ کو بھی گالیاں دیتے ہیں۔حالانکہ بیٹھے ہوئے اسی باپ کے بنائے گئے مکان میں ہوتے ہیں۔ پورے ملک کو چھوڑیں مجھے صرف اپنے علاقے کے اندر ایک ایسا بیٹا دیکھائیں جو اپنی محنت یا حلال کی کمائی سے مکان تو کیا زمین کا ایک ٹکڑا بھی خرید سکا ہو؟؟ گنتی کے چند لوگ ہونگے جو اپنی بل بوتے پر کسی مقام تک پہنچے۔ورنہ پورا
علا قہ یا تو آباؤ اجداد کا تعارف کیش کراتے کراتے کہیں پہنچے یا ابھی تک میراث پہ عیش کر رہے ہیں لیکن جب بات کرتے ہیں تو پھوں پھاں تو ایسے کرتے ہیں کہ بس دیوار پر سر ہی مار سکتے ہیں۔۔۔اج فادرز ڈے کے موقع پر صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ضروری نہیں کہ باپ آپکی تعلیم پر لاکھوں خرچ کرے تب ہی باپ کہلائے۔ جہیز کے نام پر بیٹی پر دولت لٹائے بیٹے کو وراثت میں مکانات دے جائے تب ہی وہ باپ کہلائے۔۔۔اولاد کا حق محض اچھی تربیت ہے اور والد کا حق ہے کہ وہ ہر حال میں اولاد کے لیے قابل احترام رہے۔۔۔۔چاہے وہ اپکو کوئی آسائش دے سکے یا نہیں۔۔۔۔جو لوگ اسائشات نہ ملنے پر والدین کو لعن طعن کرتے ہیں ۔جو باپ کے بوڑھے وجود کو معاشرے میں تماشہ بناتے ہیں اور خود کو بہت بڑی طرم خان سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں سے میرا سوال بنتا ہے کہ خود آپ اپنی نسل کے لیے کیا چھوڑ کر جا نے والے ہیں؟؟ سچ کہوں تو آپ والدین کی اس شرافت کا بھی شکر ادا کریں جسکے بنا پر آج آپ سر اٹھائے پھرتے ہیں جس کے بنا پر
علاقے میں آپکی عزت ہے چار لوگ اپکو سلام بھی کر لیتے ہیں ۔ورنہ ایسے طرم خان اولادوں کی ائندہ نسلوں کو تو وراثت میں دولت تو کیا والدین کی شرافت کا تعارف بھی نہیں ملنے والا ۔۔ میں چاہوں تو اس مضمون کو والد کے عنوان پر سنہرے اقوال سے سجا سکتی تھی ۔لیکن بد قسمتی سے اس عنوان پر جو حالات مجھے نظر آ تے ہیں وہ میرے الفاظ سے بھی زیادہ بد تر ہیں۔۔۔ اسلیے میں صرف یہی کہونگی کہ جن لوگوں کے والدین حیات ہیں انکی زندگیوں میں ہی انکے مقام کو پہچان لیں اور حق ادا کریں لیکن جو حیات نہیں ہیں انکے نام گلے شکووں اور فالتو داستانوں کا انبار لگانے کے بجائے انکے حق میں دعا کریں ۔ کہ آپنی کو تاہیوں کا کفارہ ادا کرنے کا آپکے پاس یہی ایک آخری آپشن ہے ۔۔۔اور بے شک اولاد کی دعا والدین کی درجات بلند کرنے کا سبب بنتے ہیں۔