داد بیداد..کورونا کے ساتھ گذارہ…..ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

زبردست اور دبنگ قسم کی خبر آئی ہے برادر اسلا می ملک انڈو نیشیا کے وزیر قانون، قومی سلا متی اور سیا سی امور محمد محفوظ نے دنیا کو خبر دار کیا ہے کہ کورونا کہیں جا نے والی نہیں اس وباء کے ساتھ ایسے گذارہ کرنا ہے جس طرح تنگی، تر شی اور تلخی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کیساتھ عمر گذار تا ہے گو یا ان کا اشارہ روئے سخن حضرات کی طرف ہے خواتین کی طرف نہیں روئے سخن ”اُسی“ کی طرف ہو تو روسیاہ اس کو آپ تنبیہ یا خبر دار ی کی جگہ اطلاع اور اعلان بھی کر سکتے ہیں دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انڈو نیشی کا بینہ کے وزیر نے اپنے گھر کی خبردی ہے کہ ان کے ہاں ایک وبا کئی سا لوں سے بیٹھی ہو ئی ہے و ہ گذارہ کر رہا ہے گو یا ان کو وبائی صورت میں کورونا آنے سے پہلے اس گھر یلو وباء کا سامنا تھا اب اچھا ہوا پورا عالم اسلام ان کے دکھ درد میں شریک ہوا ہے بلکہ سچ پو چھیں تو پوری انسا نیت کو اُسی دکھ درد کا سامنا ہے جس کے بارے میں فیض نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہا تھا ”اور بھی دکھ ہیں زما نے میں محبت کے سوا“ میاں بیوی کے درمیان تر شی اور تلخی کا مر حلہ آجائے تو بسا اوقات بول چال بند ہونے کی نو بت بھی آتی ہو گی ایسے ہی کسی وقت کا ایک لطیفہ مشہو رہے میاں بیوی کے درمیان بول چال بند تھی دونوں ضرورت کی باتیں کا غذ پر لکھ کہ میز پر رکھ دیتے تھے ایک رات سونے سے پہلے خاوند نے پر چی پر لکھ دیا صبح سویرے نکلنا ہے مجھے 3بجے جگا دینا اگلی صبح آنکھ کھلی تو 6بج چکے تھے، خاوند کو تاؤ آگیا اُس نے تاؤ کھا کر میز پر پڑی ہوئی پر چی کی طرف دیکھا تو اس پر لکھا تھا ”3بج چکے ہیں اُٹھ جاؤ تمہیں سویرے نکلنا ہے“ بات غلط بھی نہیں تھی مگر درست بھی نہیں تھی بیوی نے بول چال میں واپسی کا زرین مو قع ضا ئع کر دیا تھا امام اعظم ابو خنیفہ کے پا س ایک سائل آیا اُس نے کہا مسئلہ پیش آیا ہے میں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک میری بیوی نہیں بو لیگی میں نے اس کے ساتھ بول چال شروع کی تو میری طرف سے ایک، دو نہیں بلکہ تین طلا ق اس پر میری بیوی نے بھی قسم کھا ئی کہ جب تک میں نہیں بو لوں گا وہ بھی نہیں بولے گی شہر کے علماء کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہوگئی امام اعظم نے کہا طلا ق واقع نہیں ہوئی جب تمہاری بیوی نے قسم اُٹھا ئی تو یہ اُس کی طرف سے بول چال کا آغاز تھا اب تم دونوں پہلے کی طرح میاں بیوی ہو کورونا کے ساتھ بھی ہماری اس طرح کی تر شی اور تلخی ہو سکتی ہے اور بات جدائی تک طول پکڑ سکتی ہے انڈو نیشیا اور پا کستان کی ثقافتی زند گیوں میں شاید فرق ہو گا ہمارے دوست محمد محفوظ نے بیوی کے روٹھ کر میکے جا نے اور ساس کے ساتھ مل کر محا ذ بنا نے کا ذکر نہیں کیا ور نہ اس طرح کی صورت حال بھی پیش آسکتی ہے کورونا نے اگر روٹھ کر میکے جا نے کا فیصلہ کر ہی لیا تو کہا ں جائیگی؟ ہم چین کو اس کا میکہ قرار دیتے ہیں مگر چین نے امریکہ پر الزام لگا یا ہے کہ کورونا کا وائرس امریکہ نے لیبارٹی میں بنا یا اور فو جی سازو سامان کے ساتھ چین منتقل کیا یہ بھی خد شہ ہے کہ امریکی بز نس ٹائیکون بل گیٹس نے بنا یا اور چین منتقل کر دیا بل گیٹس کمپیو ٹر ٹیکنا لو جی میں وائرس اور انٹی وائر س کے کاروبار میں شہرت رکھتا ہے مائیکر و سافٹ کی پوری بادشاہت اس پر قائم ہے اگر کویڈ19-کا میکہ چین ہی ٹھہرا تو ہماری ساس کوئی شی چن پھو نا می خا تون ہو گی اور اگر کورونا وائرس کا میکہ امریکہ ٹھہرگیا تو ہماری ساس یقینا ملینڈا گیٹس ہو نگی اس صورت میں ہمارے درمیان پھر تہذیبوں کے ٹکراؤ کا خد شہ پیدا ہو گا بر صغیر کی سما جی روایات میں ساس کو جو مقام دیا جا تا ہے چین اور امریکہ میں ساس کا مقام اس سے قدرے مختلف ہو گا ہمارے ہاں تو مبارک صدیقی کا یہ قطعہ خا صا مشہور ہے ؎

کر کے اغوا با س کی ساس کو
دی ہے دھمکی اغوا کاروں نے باس کو
اگر نہ پہنچا یا تو نے روپے 5لاکھ
چھوڑدینگے ہم تمہاری ساس کو

تفنن برطرف، اگر خدا نخواستہ کورونا کی وباء بھی ترش اور تلخ تعلقات والی بیوی کی طرح گلے پڑ گئی تو ہماری معا شرتی زندگی کے اطوار ہی بد ل جائینگے مثلاً کسی سہا نی صبح کو معلوم ہوا کہ کورونا روٹھ کر میکے چلی گئی ہے تو ہمسایے مٹھائی کے ٹوکرے اُٹھا کر مبارک باد دینے کے لئے آئینگے ہماری دعا ہو گی کہ یہ وباء اس طرح روٹھی رہے اور کبھی میکے سے واپس نہ آئے اس طرح کورونا کی وباء نے اگر خلع کی درخواست دائر کی تو ہم دو قدم آگے بڑھ کر اس پر دستخط کرینگے کہ ”ایمان بچ گیا میرے مو لا نے خیر کی“ اگر سسرال چین میں ہو تو اپنی ساس شی چن پھو کے نا م خط یا ای میل بھیج کر اُن سے استد عا کرینگے کہ پیاری کورونا کو روکے رکھو دوبارہ اس طرف آنے نہ دو تم خواہ مخوا دکھی ہو جاوگی ویسے بھی چین اور پاکستان کی دوستی سمندروں سے گہری اور ہما لیہ کی چو ٹیوں سے زیا دہ بلند ہے ہم دور دور سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہینگے اور خدا نخواستہ میڈم کورونا کا میکہ امریکہ میں نکل آیا تو امریکہ میں مقیم اپنی ساس مادام ملینڈا کو فیس بک یا ٹوئیٹر کے ذریعے بتا دینگے کہ بیٹی میکے میں رہے تو سکھی رہتی ہے میڈم کو رونا کو دوبارہ پا کستان نہ بھیجو اُس نے اپنے سابقہ دورہ پا کستان میں ہمیں جو محبت دی ہے ہم اس کے مقروض ہیں سچ پو چھئیے تو کبھی کورونا سے اظہار محبت کی نو بت آئے تو میاں بیوی میں یاد گار جملوں کا تبا دلہ ہو گا شوہر کہے گا ”پیا ری کورونا یو با ہر نہ پھیرا کرو تمہیں حا سدوں کی نظر لگ جائیگی جواب میں کورونا کہے گی ڈار لنگ! تم نے مجھے جو محبت دی ہے میں اس کا قرض نہیں اُتار سکتی لا ک ڈاون میں نر می کر کے مجھ پر ایک اور احسان کرو لا ک ڈاون سے میرا دم گھٹ جا تا ہے اگر واقعی انڈو نیشیا کے وزیر درست کہتے ہیں کورونا کی مثال ناراض بیوی جیسی ہے تو ہمارے دوست اسکو ”آئی لو یو“ کا تحفہ بھیجدینگے

تبصرے
Loading...